میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا

اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا

ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا

نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا
کم بہت موسمِ شباب رہا

کارواں ہائے صبح ہوتے گیا
میں ستم دیدہ محوِ خواب رہا

ہجر میں جی ڈھہا گرے ہی رہے
ضعف سے حالِ دل خراب رہا

گھر سے آئے گلی میں سو باری
یار بن دیر اضطراب رہا

ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال
جان کو اپنی پیچ و تاب رہا

پردے میں کام یاں ہوا آخر
واں سدا چہرے پر نقاب رہا

سوزشِ سینہ اپنے ساتھ گئی
خاک میں بھی ہمیں عذاب رہا

حیف ہے میر کی جناب سے میاں
ہم کو ان سمجھے اجتناب رہا

Related posts

Leave a Comment